#پاراچنار: بگن اوچت حملے میں عینی شاہدین کا دل دہلا دینے والا احوال۔۔ ہم نے اپنے پیاروں کے جنازے زمین پر بکھرے دیکھے، لیکن انہیں اٹھانے والا کوئی نہ تھا، اور جو زندہ تھے وہ موت سے بھی زیادہ اذیت میں تھے💔
21 نومبر صبح کے وقت ہم پاراچنار سے براستہ شورکو نکلے اور علی زئی پہنچے۔ وہاں کچھ دیر انتظار کے بعد کنوائی ملی اور ہم تقریباً سو گاڑیاں آگے روانہ ہوئے۔ جیسے ہی ہم بگن کے قریب پہنچے، آزان کا وقت ہو رہا تھا۔ آزان ختم ہونے کے ساتھ ہی ہر طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہماری گاڑی کے ڈرائیور کو گولی لگی گاڑی رک گئی۔ ہر طرف سے گھروں، دکانوں، مسجد، اور جھاڑیوں سے ہم پر ہر قسم کے اسلحے سے حملہ ہو رہا تھا۔
فائرنگ سے بچنے کیلئے ہم گاڑی کی سیٹوں کے نیچے لیٹ گئے، فائرنگ مسلسل جاری رہی۔ جنازے ہمارے اوپر گرتے رہے، چیخ و پکار اور خون کی ندیاں ہر طرف بہہ رہی تھیں۔ پھر ہمیں آوازیں آئیں کہ اٹھ جاؤ، ہم مدد کرتے ہیں! مگر جیسے ہی کچھ لوگ اٹھے، دوبارہ ہم پر فائرنگ کر دی گئی۔ یہ وحشت کا سلسلہ ایک گھنٹے سے زیادہ تک جاری رہا۔ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو مرتے دیکھا جنکی لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوئی تھیں۔
بگن کے مقامی لوگ، جن میں نوجوان، بچے بھی شامل تھے، ہمارے شہیدوں کی جیبیں ٹٹول رہے تھے، ان کے پیسے، موبائل اور گاڑیوں سے قیمتی سامان لوٹ رہے تھے۔ انگلیوں میں انگوٹھوں تک کو نہیں چھوڑا۔ جنازے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا، لیکن لوٹ مار کرنے والوں کا بازار بھرپور تھا۔ بھرے بازار میں ہمارے شہیدوں کے لاشوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔
جو لوگ زندہ بچے، ان میں سے زیادہ تر اپنی گاڑیوں سے نکل کر چھپنے کی کوشش میں ادھر اُدھر جھاڑیوں کی طرف گئے۔ کچھ کو یرغمال بنایا گیا اور کچھ کو جھاڑیوں میں شہید کر دیا گیا۔ بہت دیر بعد ایک سرکاری گاڑی پہنچی اور بچ جانے والوں کو اٹھایا گیا۔ یہ منظر ایک قیامت خیز دن تھا۔
التماس دعا 🕊️
برائے شہادت ❤️
#پاراچنار_کانوائی
@NWO313UR
21 نومبر صبح کے وقت ہم پاراچنار سے براستہ شورکو نکلے اور علی زئی پہنچے۔ وہاں کچھ دیر انتظار کے بعد کنوائی ملی اور ہم تقریباً سو گاڑیاں آگے روانہ ہوئے۔ جیسے ہی ہم بگن کے قریب پہنچے، آزان کا وقت ہو رہا تھا۔ آزان ختم ہونے کے ساتھ ہی ہر طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہماری گاڑی کے ڈرائیور کو گولی لگی گاڑی رک گئی۔ ہر طرف سے گھروں، دکانوں، مسجد، اور جھاڑیوں سے ہم پر ہر قسم کے اسلحے سے حملہ ہو رہا تھا۔
فائرنگ سے بچنے کیلئے ہم گاڑی کی سیٹوں کے نیچے لیٹ گئے، فائرنگ مسلسل جاری رہی۔ جنازے ہمارے اوپر گرتے رہے، چیخ و پکار اور خون کی ندیاں ہر طرف بہہ رہی تھیں۔ پھر ہمیں آوازیں آئیں کہ اٹھ جاؤ، ہم مدد کرتے ہیں! مگر جیسے ہی کچھ لوگ اٹھے، دوبارہ ہم پر فائرنگ کر دی گئی۔ یہ وحشت کا سلسلہ ایک گھنٹے سے زیادہ تک جاری رہا۔ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو مرتے دیکھا جنکی لاشیں سڑکوں پر بکھری ہوئی تھیں۔
بگن کے مقامی لوگ، جن میں نوجوان، بچے بھی شامل تھے، ہمارے شہیدوں کی جیبیں ٹٹول رہے تھے، ان کے پیسے، موبائل اور گاڑیوں سے قیمتی سامان لوٹ رہے تھے۔ انگلیوں میں انگوٹھوں تک کو نہیں چھوڑا۔ جنازے اٹھانے والا کوئی نہیں تھا، لیکن لوٹ مار کرنے والوں کا بازار بھرپور تھا۔ بھرے بازار میں ہمارے شہیدوں کے لاشوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔
جو لوگ زندہ بچے، ان میں سے زیادہ تر اپنی گاڑیوں سے نکل کر چھپنے کی کوشش میں ادھر اُدھر جھاڑیوں کی طرف گئے۔ کچھ کو یرغمال بنایا گیا اور کچھ کو جھاڑیوں میں شہید کر دیا گیا۔ بہت دیر بعد ایک سرکاری گاڑی پہنچی اور بچ جانے والوں کو اٹھایا گیا۔ یہ منظر ایک قیامت خیز دن تھا۔
التماس دعا 🕊️
برائے شہادت ❤️
#پاراچنار_کانوائی
@NWO313UR