مفتی محمد تقی عثمانی صاحب


Channel's geo and language: Iran, Persian
Category: Religion


اس چینل کے ذریعے سے آپ شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کے بیانات ، تحریریں اور کتابیں Pdf حاصل کرسکتے ہیں ـ
رابطہ بوٹ ◀ @Muftitqichanal_Rabtabot

Related channels  |  Similar channels

Channel's geo and language
Iran, Persian
Category
Religion
Statistics
Posts filter


البلاغ، رمضان، شوال، 1446ھ.pdf
9.3Mb
مجلہ : #ماہنامہ_البلاغ
ماہ : اپریل 2025
ادارہ : جامعہ دارالعلوم کراچی




Video is unavailable for watching
Show in Telegram
Mufti Muhammad Taqi Usmani Sahab_Buland Maqam Tak Pohanchanay Wala Amal


ٹیلی گرام چینل↶

https://t.me/MuftiTaqiUsmaniSahab


Forward from: ضروری معلومات | Important Info
القاموس المحیط لغت کا ویب ورژن
تعارف، فوائد، طریقۂ استعمال

”قاموس المحیط“ عربی زبان کی ایک مشہور کلاسیکی لغت ہے جسے علامہ فیروزآبادیؒ (متوفی 817ھ) نے مرتب کیا۔ اس لغت کو عربی ادب، تفسیر، حدیث، اور فقہ کے طلباء صدیوں سے علمی حوالوں کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں۔
Baheth.info ویب سائٹ نے اس لغت کو آن لائن تلاش کے قابل (searchable) بنا دیا ہے، جس سے عربی زبان سیکھنے والوں، مدرسہ کے طلباء، محققین اور اساتذہ کو بہت سہولت میسر آتی ہے۔
‏🔹 اہم خصوصیات:
‏✅ کلاسیکی لغوی تشریحات:
ہر لفظ کی جڑ (root word)، مختلف معانی، استعمال، صرفی شکلیں اور مثالیں موجود ہوتی ہیں۔
‏✅ فوری تلاش کی سہولت:
کسی بھی عربی لفظ کو سرچ بار میں لکھ کر فوراً اس کی تفصیلی تشریح دیکھی جا سکتی ہے۔
‏✅ کئی لغات کا مجموعہ:
صرف ”قاموس المحیط“ ہی نہیں بلکہ لسان العرب، تاج العروس، الصحاح، المعجم الوسیط جیسی مشہور لغات بھی اسی پلیٹ فارم پر دستیاب ہیں۔
‏✅ سادہ اور کم وزن ویب سائٹ:
موبائل یا کمزور انٹرنیٹ پر بھی یہ ویب سائٹ آسانی سے کھلتی ہے۔
‏🔹 طلباء کے لیے فائدے:
‏📘 عربی ادب اور بلاغت کی سمجھ میں اضافہ:
الفاظ کے اصلی اور فصیح معانی جان کر شعر و نثر کی بہتر تفہیم حاصل ہو سکتی ہے۔
‏🕌 قرآنی الفاظ کی لغوی تحقیق:
قرآن فہمی میں مدد کے لیے عربی الفاظ کے اصل مفاہیم اور استعمالات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
‏📖 حدیث اور فقہی متون کی تشریح:
مشکل الفاظ اور فقہی اصطلاحات کا مفہوم معلوم کرنے میں معاون۔
‏📚 تحقیقی کام میں آسانی:
مقالہ جات، تقاریر یا دینی دروس کے لیے حوالہ جات اور زبان کی باریکیوں کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد۔
🔹 طلباء کس طرح استعمال کریں؟
🔍 ویب سائٹ کھولیں:
http://www.baheth.info/all.jsp?term=
‏🔡 سرچ باکس میں کوئی بھی عربی لفظ ٹائپ کریں۔
مثلاً: علم، فقه، صوم، كلام، كتاب وغیرہ
‏📄 نتیجہ میں ظاہر ہونے والے مختلف لغات میں سے قاموس المحیط کو منتخب کریں۔
‏📘 الفاظ کی صرفی اقسام، مترادفات، استعمالات اور جملوں میں مثالیں ملاحظہ کریں۔
‏✍️ اپنے نوٹس میں خلاصہ لکھیں تاکہ بعد میں یاد رکھ سکیں۔
‏🔹 تجاویز:
مدرسہ کے اساتذہ طلباء کو ہفتہ وار مشق کے طور پر عربی الفاظ کی لغوی تحقیق کا ٹاسک دے سکتے ہیں۔
طلباء عربی ڈکشنری کے استعمال کی مہارت حاصل کر کے تفسیری اور فقہی مطالعہ میں گہرائی پیدا کر سکتے ہیں۔

ضروری بات: جب آپ اس ویب سائٹ میں جائیں گے تو لکھا آئےگا
Your connection is not private
آپ Advanced بٹن دبا کر Proceed to www.baheth.info (unsafe) پر کلک کر دیں

https://t.me/ImpoINFO


Forward from: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
Video is unavailable for watching
Show in Telegram
یاد رکھو! اس دنیا سے وہی شخص با مراد ہوکر جاتا ہے جو اپنے جیتے جی اپنی زندگی میں نیک اعمال کر کے اپنی قبر اور آخرت کے واسطے اپنے ساتھ اعمالِ صالحہ کا توشہ لے جاتا ہے ـ ـ ـ ـ بِلا اس کے وہاں کوئی آرام چین اور سکھ نصیب نہ ہوگا ـ
---
https://t.me/MuftiTaqiUsmaniSahab




صرف اسرائیلی مصنوعات ہی کا بائیکاٹ نہیں کرنا بلکہ اسرائیل کی مدد کرنے والی کمپنیوں کا بھی بائیکاٹ کرنا ہے اور جو اپنی دکانوں پر ایسی مصنوعات رکھے، اس کا بھی بائیکاٹ لیکن خوب سمجھ لو کہ اسلام ہمارے پاس اعتدال کا دین ہے۔ یہ محض جذبات میں آ کر توڑ پھوڑ کرنے والا دین نہیں، یہ جذبات میں آ کر کسی کو نقصان پہنچانے والا دین نہیں لہذا یہ پتھر مارنا، پتھر برسانا اور جا کر کسی کی جان کو کسی کے مال کو نقصان پہنچانا، یہ شریعت میں حرام ہے، لہذا اعتدال کی راہ اختیار کرو بائیکاٹ کرو، لیکن پرامن طریقے سے کرو، اس کے اندر کوئی بد امنی کا پہلو شامل نہیں ہونا چاہیے، اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ حکمرانوں کے متنبہ کرو ان کو آمادہ کرو کہ وہ اپنا فریضہ ادا کریں، یہ متنبہ کرنا بھی پرامن طریقے سے ہونا چاہیے، جو لوگ اسلام پر اپنی مسلمان حکومتوں سے لڑنے پر تیار ہیں جو ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں، یہ کوئی قابل قبول طریقہ نہیں، ہم بارہا اس کا اعلان کر چکے ہیں، لہذا جو کچھ بھی کرنا ہے، وہ پرامن طریقے سے، ورنہ غزہ میں تو جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہو رہا ہے، مسلمان ملکوں کے اندر اگر خانہ جنگی شروع ہو گئ تو مسلمان تتر بتر ہو جائیں گے، لہٰذا اس سے ہمیشہ پرہیز کیا جائے۔

آخری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اب کچھ عرصے سے ایک عجیب ہوا چلی ہے، وہ ہے علماء کرام کو قتل کرنے کی، جگہ جگہ، بے مقصد، کوئی بے ضرر انسان جو اللہ کا نام لے رہا ہے، کسی مسجد میں اللہ کا نام لے رہا ہے، کسی مسجد مدرسے میں پڑھا رہا ہے اور اچانک لوگ آتے ہیں اور اس کو فائرنگ کر کے شہید کر دیتے ہیں، ابھی حال ہی میں ہمارے متعدد علمائےکرام شہید ہوئے اور رمضان المبارک میں جامعہ دارالعلوم حقانیہ جیسا عظیم ادارہ، اتنا بڑا عظیم ادارہ جس کو مولانا فضل الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ میرا مادر علمی ہے وہ اس مدرسے کے اندر گھس کر اس کی مسجد کے پاس جا کر وہاں حضرت مولانا عبدالحق صاحب کے پوتے مولانا عبد السمیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ شہید کے بیٹے مولانا حامد الحق کو شہید کیا گیا اور آج تک پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون تھا اور اس کا سر بھی مل گیا اور اس کی سب چیزیں مل گئیں لیکن پتہ نہیں چلا کہ وہ کون تھا،درحقیقت ہم سے بدلہ لیا جا رہا ہے، ہم جو فلسطین کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو ہم سے یہ بدلہ لیا جا رہا ہے کہ تم بھی ہمارے نشانے پر ہو لیکن ہماری حکومت اور ہماری ایجنسیاں ان کو تو کم از کم اس کا نوٹس لینا چاہیے اور جو لوگ اس سازش میں ملوث ہیں ان کو بے نقاب کر کے کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔

میرے بھائیو! میری بات شاید زیادہ لمبی ہو گئی ہے لیکن بات ایسی ہے کہ دل بے چین ہے، دل بے چین ہے اور لوگ عام مسلمان بھی میں تو پھر بھی کچھ تھوڑا بہت مسئلے سے تعلق رکھتا ہوں، لیکن ایک عام آدمی بھی چلتا ہوا میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت رات کو نیند نہیں آتی، جب میں غزہ کی تصویریں دیکھتا ہوں، غزہ کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی تصویریں دیکھتا ہوں تو مجھے نیند نہیں آتی، عام انسانوں کے یہ جذبات ہیں، ان جذبات کی وجہ سے یہ اجتماع کرنا بھی ضروری سمجھا اور اس کے ساتھ ان اعلانات کو بھی جو آپ نے ابھی حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب کی زبانی سنے ہیں، امید ہے کہ ان شاءاللہ یہ آواز بے اثر نہیں ہوگی، یہ آواز پھیلے گی، عالم اسلام میں پھیلے گی، اس کا اعلامیہ ان شاءاللہ، عربی میں اردو میں،انگریزی میں ہر زبان میں ان شاءاللہ العزیز ترجمہ کر کے پھیلایا جائے گا، کیا آپ حضرات اس کو پھیلانے میں ہماری مدد کریں گے؟؟؟
ان شاء اللہ
*اللہ تعالی آپ کا اور ہمارا حامی و ناصر ہو*

واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين


گا تو اس کی تعداد جتنی بھی ہو جائے وہ سیلاب میں بہتے ہوئے تنکوں کی طرح ہو گی، آج یہ منظر ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں گویا کہ نبی کریم سرور دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پیشین گوئی جو فرمائی تھی اس کا مظاہرہ ہمیں اپنی آنکھوں سے آج کے حالات میں نظر آرہا ہے لیکن میرے بھائیو! میں صرف مایوس کرنے کی بات نہیں کرتا، اللہ تبارک و تعالی نے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے، آپ نے ہمیں مایوسی کا درس نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں امیدیں دلائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ اور یہ وعدہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وعدہ ہے کہ آج کے بعد ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ جو پہلی امتوں کی طرح کا خیر القرون والا زمانہ ہوگا، فرمایا

مثل الامتی کمثل المطر لا یدر اولہ خیر أم اخرہ

میری امت کی مثال بارش کی سی ہے، یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کا پہلا حصہ زیادہ بہتر تھا یا آخری والا حصہ زیادہ بہتر ہو گا۔

وہ وقت آنے والا ہے، آئے گا، ضرور آئے گا اللہ اور اللہ کے رسول کا وعدہ، وہ وقت تو ضرور آئے گا جب خیر القرون کا دور لوٹے گا، جب پورے عالم پر اسلام ہی سربراہ ہوگا،


هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ(9)
ترجمہ: کنزالایمان
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے بھلے بُرا مانیں مشرک

کوئی اس کو جتنا بھی برا سمجھے لیکن وہ وقت آنے والا ہے، ہم اس وقت کے آنے کے درمیان کے لوگ ہیں، یہ بےشک ہم ایک تاریک رات سے گزر رہے ہیں لیکن تاریک رات میں بھی جو چراغ جلا دے گا، جو جس طرح کے چراغ جلا دے گا، وہ اس قافلے کا ساتھی بن جائے گا، جو آخر القرون کے اندر اول القرون کی یاد دلانے والا ہے، اگر ہم اپنا فریضہ ادا کرتے رہے اگر ہم اللہ اور اس کے رسول کا مطالبہ پورا کرتے رہے تو ہم چھوٹے چھوٹے چراغ ہیں، یہ روشنی دیتے رہیں گے یہاں تک کہ صبح کا اجالا نمودار ہو جائے گا اور ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہمیں یہ خوشی ہے

• کہ ہم ہیں چراغ آخرِ شب*

ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے،
لہذا اپنے کو کمزور نہ سمجھو

*لَا تَھِنُوا وَلَا تَحْزَنوا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(139)*

کمزور نہ پڑو، غم نہ کرو،اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب آؤ گے۔

لہذا آج کے اعلامیے میں جو آپ کے سامنے حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے پڑھ کر سنایا اس میں ایک واضح لائحہ عمل دی گئی، مسلم حکمرانوں کو بھی اور ان کا متنبہ کیا گیا ہے کہ آپ کے سر پر یہ ایک ذمہ داری آگئی ہے، پہلے اس کا ادراک تھا یا نہیں تھا اب ادراک ہو جانا چاہیے اور وہ اس ذمہ داری کو ادا کریں، حکومتوں کے پاس ہزار راستے ہوتے ہیں یہ نہ سمجھا جائے کہ میں یہ کہ رہا ہوں کہ وہ آج ہی جا کر کوئی ایٹمی حملہ کر دیں، لیکن ان کے ذہن میں یہ بات پختہ ہونی چاہیے کہ جہاد ہمارا فریضہ ہے، ہماری افواج کا جو موٹو ہے وہ تین چیزیں ہیں۔
۔ایمان
۔تقوی
۔جہاد

یہ موٹو ہے، ہماری افواج کا، جب یہ موٹو ہے تو پھر پوچھو ان لوگوں سے جو جہاد کا فتوی دے رہے ہیں، ان سے پوچھو کہ آج جہاد کا وقت ہے یا نہیں، اگر جہاد کا وقت ہے اور آپ کو اس بات کا ادراک ہو جاتا ہے کہ واقعتا جہاد کا وقت ہے تو آپ کے پاس جہاد کے لیے ہزار راستے ہیں، آپ نے وہ راستے مختلف علاقوں پر استعمال کیے ہیں،آپ نے بوسنیا میں استعمال کیے، آپ نے مختلف مقامات پر استعمال کیے ہیں، آپ کے پاس آج بھی راستے موجود ہیں اور مجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں کہ کیسے راستے ہو سکتے ہیں؟لہذا ان کو اختیار کرنا آپ کا فریضہ ہے اور یہ پوری قوم آپ سے منتظر ہے اس بات کی کہ آپ اس فریضے کو ادا کریں، اور دوسری عالم اسلام کے مسلمانوں، حکمرانوں کو بھی آج کا یہ اجتماع پیغام دے رہا ہے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور ان مرتے ہوئے بچوں کا خوف کریں اور ان مرتی اور چلاتی ہوئی عورتوں کا، اس ڈاکٹر کا جو یہ پیغام رہا ہے کہ غزہ آخری سانس لے رہا ہے، ڈاکٹر یہ پیغام دے رہا ہے کہ غزہ آخری سانس لے رہا ہے، ہم نے تمہارا بہت انتظار کیا لیکن تم نہیں آئے، اللہ حافظ!

یہ پیغام ایک ڈاکٹر نے بھیجا ہے اور میرے پاس موجود ہے، تو میرے بھائیو! کب تک ہم اس بےغیرتی کی زندگی گزاریں گے، اللہ تعالی ہمیں دینی، ایمانی حمیت اور غیرت عطا فرمائے اور آج جو اعلان کیا گیا ہے اس میں تمام قوم سے یہ اپیل کی گئی ہے کہ اس موضوع کو مرنے نہیں دینا اس کو زندہ رکھنا ہے اور زندہ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ اسرائیل کے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، مکمل بائیکاٹ۔


رہا ہےکہ چونکہ مسلمان ممالک کے معاہدے ہیں، غیر مسلم ملکوں کے ساتھ، اس لیے ہم اگر مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور وہ قومیں ان پر ظلم کر رہی ہیں جن کے ساتھ ہمارے معاہدے ہیں تو ہمیں پھر ان کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

خوب سمجھ لیجئے کہ یہ محض ایک دھوکہ ہے، اس لیے اولا تو اس لیے کہ اسرائیل کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں، پاکستان کا یا اکثر وبیشتر مسلمان ملکوں کا اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں، ہم نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہمارے پاکستان کے بانی نے پاکستان بننے سے پہلے اسرائیل کے وجود کو دولۃ الحرام قرار دیا تھا، ناجائز بچہ قرار دیا تھا اور آج بھی ہم اسی موقف پر قائم ہیں،اسرائیل جتنا بھی طاقتور ہو جائے، اسرائیل کے پاس جتنے بھی اسلحے آجائیں، اسرائیل کو امریکہ کی جتنی بھی حمایت حاصل ہو جائے، ہمارا یہ موقف تبدیل نہیں ہوگا، نہیں ہوگا، نہیں ہوگا۔

اولا تو ہمارا اسرائیل سے کوئی معاہدہ نہیں جب اسرائیل سے کوئی معاہدہ نہیں اور اس نے سارے معاہدا توڑ کر اس وقت ہمارے بچوں کو وہ قتل کرنے پر آمادہ ہیں اور یہ چاہتا ہے جان بوجھ کر نسل کشی کا اور قتلِ عام کا اقدام کر رہا ہے، امریکہ کا وزیر خارجہ اس سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ اسرائیل کی حمایت کرتے ہو جب کہ وہ ہزارہا مسلمانوں کے قتل عام کا مرتکب ہو چکا ہے، تو کہتا ہے کہ چاہے وہ سارے مسلمانوں کا قتل عام کر دے، ہم اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، یہ اعلان اس نے برملا کیا ہے، وزیرِ خارجہ نے برملا یہُ اعلان کیا ہے، لعنت ہو اس اعلان پر، لعنت ہو اس اعلان پر،

وہ کہتا ہے ہم اسرائیل کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، ہم کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے، ہماری گردنیں اڑادو، ہمارے گھر تباہ کر دو لیکن ہم فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے اور جب ہمارا کوئی معاہدہ نہیں تو قرآن مجید کا یہ حکم ہم پر فرض ہے


اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ

اور اگر اقوام متحدہ کی بات کرتے ہو، وہ اقوام متحدہ جو تمہارے ہاتھ کا کھلونا ہے، وہ اقوام متحدہ جو تم نے صرف اپنے مفاد کی خاطر بنائی ہے جس کا کوئی کام تمہارے مفادات کی خدمت کرنے کے سوا نہیں ہے، اس اقوام متحدہ کی بات کرتے ہو تو اس اقوام متحدہ نے 1966 میں متفقہ قرارداد منظور کی کہ اسرائیل نے بیت المقدس پر جو قبضہ کیا ہےاور اس وقت جو اس نے نئے اس پر قبضے کیے ہیں اور یہودیوں کو وہاں بسانے کے جو اقدامات کیے ہیں، وہ غیر قانونی ہیں، وہ ضابطے کے خلاف ہیں یہ اعلان تمہاری خود اپنی پیدا کردہ اقوام متحدہ کی قرارداد ہے کہ وہ ظالم ہیں، وہ غاصب ہیں، بیت المقدس پر ان کا قبضہ غیر قانونی ہے، لہذا ہمارا اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں اور اس معاملے میں چونکہ امریکہ بھی یہ سب باتیں دیکھنے کے باوجود اور جو عالمی عدالت کا فیصلہ سننے کے باوجود جو یہ کہ رہا ہے کہ میں ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیتا رہوں گا اور جو انجام اس کا ہو گا وہ میرا بھی ہوگا، جو یہ کہہ رہا ہے وہ معاہدہ اپنا توڑ چکا، وہ اب اپنے معاہدے کو توڑنے کا مجرم ہے ۔لہذا ہمارا یہ جو قرآن کریم کی آیت کریم ہے

اِلَّا الّذین بینکم وبینھم میثاق

اس کا ہم سے کوئی تعلق اس معاملے میں نہیں ہوتا ،ہر معاہدہ وہ اپنے قول سے بھی اور عمل سے بھی توڑ چکے، اب کوئی معاہدہ باقی نہیں رہا لہذا اب امت مسلمہ کے حکمرانوں پر یہ فرض ہے کہ جتنی ان کی استطاعت ہے، اس استطاعت کے مطابق وہ اہل فلسطین کا ساتھ دیں، اور اسرائیل کا مقابلہ کریں، اب ذرا غور تو کرو اسرائیل کیا ہے ایک چھوٹی سی پٹی ہے دنیا کے نقشے پر، 32 دانتوں کے درمیان ایک زبان ہے، چاروں طرف مسلمان ملک حائل ہیں اور اس میں وہ جو ایک چھوٹی سی زبان ہے، وہ امریکہ کی پشت پناہی ہے، امریکہ کے اسلحہ کے بل پر، امریکہ کی حمایت کے بلا پر وہ ان سارے مسلمان ملکوں کو مرعوب کیے ہوئے ہیں، اس کے سوا اور کیا کہیں جو سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:

ایک وقت ایسا آ جائے گا کہ مسلمانوں کی حالت، مسلمان جہاد چھوڑ دیں گے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھاکہ یارسول اللہ! کیا ان کی تعداد کم ہو جائے گی، اس لیے جہادچھوڑ دیں گے آپ نے فرمایا: نہیں ان کی تعداد بہت ہو گی
و لكِنّهُم غُثاءٌ كَغُثاءِ السيل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہ ایسے ہوں گے جیسے سیلاب میں بہتے ہوئے تنکے ہوتے ہیں"

ان کی تعداد بہت ہے لیکن وہ سیلاب کا رخ موڑنے کے قابل نہیں ہوں گے، ایسے ہو جائیں گے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیسے؟صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ تصور کرنا مشکل تھا کہ وہ صرف مسلمان ہو، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو مانتا ہو اور پھر بھی وہ جهاد کو چھوڑ بیٹھے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کیوں ہوگا؟یہ کیسے ہوگا؟فرمایا کہ دنیا کی محبت اور موت کا خوف یہ دو چیزیں جب آجائیں گی، دنیا کی محبت اور موت کا خوف تو پھر مسلمان جہاد چھوڑ بیٹھے گا اور جہاد چھوڑ بیٹھے


ٹرمپ صاحب! ایک دن آپ کو بھی موت آنے والی ہے، ایک دن آپ کو بھی مرنا ہے اور خدائی آپ کے ہاتھ میں نہیں آگئی ہے، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ملک ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی زمین ہے۔

اِنَّ الاَرضَ لِلّٰهِ يُورِثَها مَن یَشَآءُ منْ عِبَادِهِ

آپ کے ارادے، آپکے عزائم مسلمانوں کے خلاف کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں، آپ کے دل میں مسلمانوں سے بغض ہے، اپ کے دل میں مسلمانوں کے ساتھ کینہ ہے، آپ کسی مسلمان کی جان کو اس کے مال کو، اس کی عزت کسی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، آپ صرف اس شخص کی جان کو سمجھتے ہیں جس کی چمڑی گوری ہو، جو یورپ کا باشندہ ہو، جن کی چمڑی گوری نہیں ہے وہ آپ کے نزدیک غلام ہے، اس کے ساتھ آپ کا برتاؤ غلاموں جیسا برتاؤ ہے۔

لیکن یاد رکھو! کہ غلام بھی جب اللہ تبارک و تعالی ان کو طاقت دیتا ہے تو بڑے بڑے فرعونوں کا تختہ الٹ دیتے ہیں، اج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سخاوت کا جس بہادری کا، جس شجاعت کا مظاہرہ حماس کے جانبازوں نے کیا ہے، وہ بذات خود ایک تاریخ بن رہی ہے، بے شک پچپن ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں، بے شک ان میں عورتیں بھی، بچے بھی شامل ہیں لیکن حماس کے لیڈروں، حماس کے قائدین کو دیکھو کہ وہ آج بھی اپنے موقف سے ایک انچ بھی اس سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، ان کی آنکھوں کے سامنے موت جاگ رہی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے موقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ یہ دوبارہ بدعہدی کس طرح شروع ہوئی، انھوں نے ایک معاہدہ ہوا تھا، ساری دنیا کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اور ساری دنیا کے معاہدے کے اندر یہ بات طے ہوئی تھی کہ قیدیوں کا تبادلے کی شرح بھی متعین ہوگئی، اب یہ مطالبہ ہے کہ ہمارے ان پانچ قیدیوں کو اس معاہدے سے ہٹ کر یعنی مفت انکو آزاد کرو ورنہ ہم تمہارے شہریوں پر بمباری کریں گے، اس معاہدے کے خلاف پچاس قیدیوں کو باالاتفاق خارج بالعہد یعنی معاہدے سے باہر یعنی مفت آزاد کرو، ورنہ تمہارے اوپر بمباری کی جائے گی، اس بنیاد پر بمباری کی، بد عہدی پر بمباری کی جارہی ہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی بن کر دیکھ رہی ہے، انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک ہم جو کلمہ لا الہ الا اللہ کے قائل ہیں، اس کے نام لیوا ہیں، وہ یہ سارا منظر آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

میں آج کی اس میں محفل میں پہلے ہی شرمندگی کا اظہار کرچکا ہوں کہ اب تک ہمارا جو کچھ جمع خرچ ہے وہ اس مالی مدد کی حد تک ہے، زبانی مدد کی حد تک ہے اور ہم نے اپنی حکومتوں سےکھل کر یہ مطالبہ اب تک نہیں کیا کہ آج آپ کے اوپر جہاد فرض ہو چکا ہے، ساری اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے، اپنی حسب استطاعت ہر مسلمان حکومت پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔

اب ہم زبانی جمع خرچ سے اپنے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینے کے قابل نہیں، اب صرف زبانی مذمتوں سے ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برا نہیں ہوسکتے، تمام مسلمان حکومتوں پر درجہ بدرجہ جہاد فرض ہے،آنکھوں سے اپنے سامنے بچپن ہزار سے زائد کلمہ توحید کے ماننے والوں کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی اگر ان پر جہاد فرض نہ ہو پھر انکے اسلحہ کس کام کے، انکی افواج کس کام کی، اگر وہ اپنے مسلمانوں کو اس ظلم و ستم سے نجات نہ دلا سکیں۔

یہاں ایک مغالطہ پیش کیا جاتا ہے، اور وہ مغالطہ پھیلایا جا رہا ہے، بڑے پیمانے پر پھیلایا جا رہا ہے، قران کریم کہتا ہے کہ:

وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ

ترجمہ:
اور جب وہ تم سے دین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو تم پر ان کی مدد کرنا فرض ہے۔

یہ قرآن کریم کہتا ہے لیکن آگے قران کریم کہتا ہے:

اِلَّا عَلٰى قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ مِّیْثَاقٌ

ترجمہ:
البتہ اگر وہُ مدد ایسی قوموں کے خلاف ہو کہ ان کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہے تو پھر اپنے مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں کرنی

اس کو خوب سمجھ لیجیے، یہ آیت کریمہ در حقیقت نازل ہوئی ہے، اسوقت جب کہ رسول اکرم ﷺ نے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں پر یہ فرض کر دیا تھا کہ وہ ہجرت کریں، وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئیں، ان پر ہجرت فرض ہو گئی اور اس ہجرت نہ کرنے پر قرآن کریم میں بڑی سخت وعیدیں نازل ہوئیں، یہ کہا گیا کہ جو ہجرت نہیں کر رہے، وہ اللہ تعالی کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، جو مکہ مکرمہ میں بیٹھے ہیں اور ان پر ظلم و ستم ہو رہا ہے، اسکے باوجود وہ اگر ہجرت نہیں کر رتے تو وہ مجرم ہیں، ان مجرم مسلمانوں کے بارے میں قرآن نے کہا تھاکہ اگر وہ اے مسلمانو! تم سے مدد مانگیں تو تمہارے اوپر مدد کرنا فرض ہے، یعنی اگر انکو کوئی ایسی قوم ان پر ظلم کر رہی ہو کہ جن سے تمہارا کوئی معاہدہ نہیں ہے، تو تمہارےاوپر نصرت کرنا فرض ہے، لیکن اگر کسی ایسی قوم کے خلاف وہ تمھیں دعوت دے رہے ہیں، جس کے ساتھ تہمارا معاہدہ ہے، تو پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گی، قرآن یہ کہتا ہے، تو بعض لوگ اس استثناء کو آڑ بنا کر یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور علمی دنیا میں یہ پروپگینڈا پھیلایا جا


*قومی فلسطین کانفرنس(10 اپریل بروز جمعرات) شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم العالی کی تقریر کی تحریری شکل*

اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے ہم ایک مرتبہ پھر قضیہ فلسطین کے سلسلے میں اسلام آباد میں جمع ہیں اور اللہ تبارک و تعالی کے فضل و کرم سے تمام مکاتب فکر کے علماء دینی جماعتوں کے سربراہان اور ملت کے اصحاب فکر ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں آپ حضرات کے سامنے فلسطین کا قضیہ لے کر آئے ہیں، مجھے اس لحاظ سے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کہ آج سے سال بھر پہلے کنونشن سینٹر میں ہم نے ایک ایسا ہی اجتماع منعقد کیا تھا اور اس میں بھی ہمارے ملک کے چیدہ چیدہ اصحاب فکر جمع تھے، اس میں بھی ہم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم اہل فلسطین کے ساتھ ہیں، اس میں بھی ہم نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اہل فلسطین کی مدد جسمانی، مالی، جانی ہر طرح کی مدد جسکی استطاعت میں ہو وہ اسکا فریضہ ہے، اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ آج ہم یہاں جمع ہونے کے بجائے غزہ کے میدان میں جمع ہوتے لیکن ہماری شامت اعمال ہے کہ آج سال بھر گزرنے کے بعد بھی ہم اسی کانفرنس کے طریقے کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور کوئی عملی قدم مجاہدین کی امداد کے لیے ابھی تک ہم نہیں اٹھا سکے، جو بیت المقدس کے دفاع کے لیے، امت مسلمہ کے دفاع کے لیے، اسلام کی غیرت کے دفاع کے لیے اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں، آج سے سال پہلے جب ہم جمع تھے تو اس جہاد کا آغاز تھا بیچ میں ایسا وقت آیاکہ دوستوں کے بیچ میں پڑنے کے نتیجے میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ ہوا، اس جنگ بندی کے معاہدے کے نتیجے میں غزہ کے بے گناہ شہریوں پر جو آفت کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے بمباری کی جو بارش ہو رہی تھی وہ کچھ دیر کے لیے بند ہوئی لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کو نہ کسی انسانی قدر کا پاس ہے، نہ کسی عقیدے کا پاس ہے، نہ کسی اخلاق کی قدر کا پاس ہے، نہ ان کو کسی معاہدے اور کسی وعدے کا احساس ہے، ساری دنیا کے سامنے غیر ملکی ضمانتوں کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کو توڑ کر آج یہ پھر دوبارہ ان معصوم بچوں پر، عورتوں پر، بوڑھوں پر، مسجدوں پر، ہسپتالوں پر، بمباری کر کے اس کو ملبے کا ڈھیر بنارہے ہیں اور یہ وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا تھا :

وَ اِنْ نَّكَثُوْۤا بَعدَ اَیْمَانِهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ فَقَاتِلُوْۤا اَئِمَّةَ الْكُفْرِ١ۙ اِنَّهُمْ لَاۤ اَیْمَانَ لَهُمْ۔

ترجمہ:
اور جب یہ عہد و پیمان کرنے کے باوجود اپنی قسموں کو توڑتے پھریں اور تمہارے دین میں طعن کرنے لگیں تو ان کفر کے اماموں سے قتال کرو (قتال کرو جہاد نہیں قتال کہا) (یہ بےایمان لوگ ہیں اور) ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔

لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ مراکش سے لے کر انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے عالم اسلام اور اس کی حکومتیں یہ سارا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں اور تماشائی بنی ہوئی ہیں اور یہ تماشائی بن کر حالات کا جائزہ لے رہی ہیں، مذمتی بیانات جاری کر رہی ہیں اور مذمتی بیانات بھی معدود چند ملکوں نے بیان جاری کیے ہیں، ورنہ بیشتر وہ ہیں کہ جو اپنے بچوں کو ذبح ہوتا ہوا دیکھ کر، ان کو خون میں لت پت دیکھ کر انکی حمیت نہیں جاگتی، ان کی غیرت کو کوئی چیز نہیں جگاتی، بیشتر تو وہ ہیں۔

الحمدللہ! ہمارا ملک تو اس میں شامل نہیں ہے، یہ کم از کم زبانی طور پر اس کی مذمت کر چکا ہے، لیکن بات زبانی مذمت کی نہیں ہے، بات یہ ہے کہ آج غزہ کو قبضہ کرنے کے لیے، نہ صرف قبضہ کرنے کے لیے بلکہ اس کو مسلمانوں کا قبرستان بنانے کے لیے اور امت اسلامیہ کو ذبح کرنے کے لیے ارادے ظاہر کیے جارہے۔

ٹرمپ صاحب کہہ رہے ہیں کہ غزہ کو ہم ان فلسطینیوں سے خالی کریں گے، وہ فلسطینی جو صدیوں سے اس جگہ آباد ہیں انکو خالی کریں گے، ان کو خالی کرکے وہاں پر تفریح گاہیں بنائیں گے، وہاں پر عیاشی کے اڈے قائم کریں گے، یہ کہتے ہوئے ان کو شرم نہیں آتی، یہ وہ ہیں جنہوں نے بچوں کی اور عورتوں کی حرمت کے نعرے لگا کر مسلمانوں کو بدنام کیا، جو خواتین کی تعلیم کے نام پر فحاشی و عریانی کو فروغ دے رہے ہیں، لیکن ان کو وہ خواتین نظر نہیں آتی جن کے دودھ پیتے بچوں کو ان سے چھین لیا گیا، جن کے سامنے ان کے بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے، وہ نظر نہیں آتیں، وہ ہزارہا انسان جو اس بربریت والی بمباری کا نشانہ بنے ہیں، وہ ان کو نظر نہیں آتے، اور یہ ایسا لگتا ہے کہ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد، ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پوری دنیا پر میری بادشاہت قائم ہو گئی ہے، اور اس کے نتیجے میں وہ کینیڈا کو، وہ گرین لینڈ کو، وہ پاناما کو، وہ غزہ کو، فلسطین کو، سب کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور پھر ملکیت سمجھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔


اہل فلستین کی مدد فرض ہے، ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا: مفتی محمد تقی عثمانی

معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ اہل فلستین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے، ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر _جہا_د اب فرض ہوچکا ہے، 55 ہزار سے زائد کلمہ گو افراد کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا _جہا_د فرض نہیں ہوگا؟

اسلام آباد میں قومی فلستین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ سال بھر پہلے کنونشن سینٹر میں ایک اجتماع منعقد کیا تھا کہ ہم اہل فلستین کے ساتھ ہیں اور ان کی ہر طرح سے مدد کریں، لیکن ہم عملی قدم کے بجائے کانفرنس پر اکتفا کیے ہوئے ہیں، تقاضہ یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کے بجائے غز، ہ میں جمع ہوتے۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلستینی جانبازوں کے لیے عملی طورپر کچھ نہیں کرپا رہے، امت مسلمہ آج صرف تماشائی ہے اور صرف مذمتی بیانات دیے جارہے ہیں، امت مسلمہ قراردادوں اور کانفرنسوں پر لگی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں غز، ہ کو زندہ رکھنا ہے، ضروری ہےکہ اسرا_ئیل اور اس کے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، اسرا_ئیل کو مدد دینے والی کمپنیوں کا بھی بائیکاٹ کریں، اسرا_ئیل کے خلاف احتجاج میں کسی کی جان اور مال کو نقصان نہ پہنچے، پتھر برسانا اور کسی کی جان اور مال کو نقصان پہنچانا شریعت میں حرام ہے، اسرا_ئیل اور اس کے حامیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ پرامن طریقے سے ہونا چاہیے۔


قومی فلسطین کانفرنس میں مفتی محمد تقی عثمانی کی تقریر درحقیقت امت مسلمہ کے ضمیر کی آواز تھی۔ یہ اس فکر کی ترجمانی تھی جو بہ یک وقت دلیل کی روشنی سے منور ہے اور ایمان کی حرارت سے لبریز...!
یہ خطاب کوئی وقتی ردِّعمل نہ تھا بل کہ وہ مستقل پیغام تھا جو اہلِ حکمت نے ہر دور میں اہلِ سلطنت کو دیا ہے... اس میں حکم رانوں کے لیے تنبیہ بھی تھی اور عوام کے لیے بیداری کا پیغام بھی... اُنھوں نے پوری امت کو آئینہ دکھایا اور اس کے خوابیدہ ضمیر کو جگانے کی کوشش کی...
اور سب سے اہم یہ کہ اُنھوں نے ان باطل آوازوں کو خاموش کر دیا جو "فلسطین ہمارا مسئلہ نہیں" کہہ کر عافیت کا راستہ تلاش کرتی ہیں... وہ آوازیں جو مدد کے فریضے سے پہلو تہی کو مصلحت کا نام دیتی ہیں، اُن کے لیے مفتی صاحب کا خطاب ایک زبردست تردیدی بیانیہ تھا اور ایک فکری ضرب تھی جو بہ یک وقت دلیل کی کاٹ بھی رکھتی تھی اور ایمان کی حرارت بھی..!
یہ محض تقی عثمانی کی آواز نہ تھی، یہ اُس امت کے سوئے ہوئے ضمیر کی پکار تھی جو اگر جاگ جائے تو تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ سکتی ہے..!


Mufti Taqi Usmani Speech in National Conference Islamabad


Forward from: محمد تقی عثمانی
Video is unavailable for watching
Show in Telegram
📹 JUI National Conference | Muhammad Taqi Usmani Blasting Speech | Express News

➥ 𝗧𝗘𝗟𝗘𝗚𝗥𝗔𝗠
https://t.me/MuhammadTaqiUsmani


➥ 𝗪𝗛𝗔𝗧𝗦𝗔𝗣𝗣
https://whatsapp.com/channel/0029VaNCISl1Hsq65sAX720w


Forward from: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
Video is unavailable for watching
Show in Telegram
فلسطین کے حالات پر مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ
بیان جمعہ کا مختصر حصہ
(جامع مسجد جامعہ دارالعلوم کراچی)
بتاریخ : 2024-05-10 / یکم ذوالقعدہ 1445
https://youtu.be/F-H2yCzarY4
از : دارالعلوم میڈیا


Video is unavailable for watching
Show in Telegram
اس جنگ کے جس جس محاز پر لڑ سکتے ہو لڑو :
-----
تعجب ہوتا ہے حکـمرانوں کی مردہ دلی اور بے ضمیری پر۔۔۔۔!! یہ مان بھی لیں کہ تم حالتِ ضعف میں ہو تو بھی کوئی سچا قلق، حقیقی بے چینی، ایمانی درد اور جذبہ اخوت و ایمانی کے آثار تک نہیں۔۔۔۔!! کس مٹی کے بنے ہو تم بھئی۔۔۔!!
اللھم وفق ولاۃ امورنا لما تحب و ترضی، اللھم یسر لھم بطانة الخير و أعذهم من بطانة السوء
---
اے اُمت مسلمہ اس بے بسی و لاچارگی میں آپکا واحد سہارا قرآن حکیم ہے قرآن پڑھیے اور زارو قطار رویے کہ شاید آپ کی پکڑ نہ ہو کل بروز حشر ۔۔۔!


Forward from: مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
Video is unavailable for watching
Show in Telegram
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم کا دردِ دل :
------
جمعہ کے روز خطابِ جمعہ میں فلسطین میں جاری تاریخ کے بدترین ظلم و سفاکیت پر ایک بار پھر امتِ مسلمہ کے سوئے ہوئے ضمیر کو جس زور دار انداز میں جھنجھوڑا ہے، اور جس طرح ظلم و جبر میں پسنے والے مظوم فلسطینی مسلمانوں کا درد امت کے سامنے بیان کیا ہے.......اسے سننے کے بعد کوئی بھی  دردِ دل رکھنے والا انسان اور غیرت رکھنے والا مسلمان متاثر ہوئے اور بے چین ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔.....!
حضرت والا نے انتہائی پرجلال انداز میں درد بھرے دل کے ساتھ عالمِ اسلام کی بے حسی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے اللہ تبارک و تعالٰی کے عذاب سے ڈر لگتا ہے کہ  پورا عالم اسلام اس وقت جس بے غیرتی میں، بے حسی میں، جس بے حمیتی میں پھنسا ہوا ہے، یہ اللہ تعالٰی کو ناراض کر کے  پورے عالم اسلام کے لیے تباہی کے پیش خیمہ نہ ہو۔‘‘

’’ تم اپنے گلچھرے اڑا رہے ہو، تم افطار کی دعوتیں کر رہے ہو، تم لوگوں کے لیے کھانے تیار کر رہے ہو، ہنسی اڑا رہے ہو، عیاشیاں کر رہے ہو، اور تمہارے بھائی، تمہاری بہنیں، تمہارے بچے، تمہاری اولاد،  تاریخ کے بدترین طریقوں پر ذبح ہو رہے ہیں....‘‘




Video is unavailable for watching
Show in Telegram
Mufti Muhammad Taqi Usmani Sahab_
Sirat e Mustaqeem Kay Mustahiq Log Kon_

ٹیلی گرام چینل ↶
https://t.me/MuftiTaqiUsmaniSahab

20 last posts shown.